سید ابراہیم رئیسی نے ہفتے کی رات تہران میں شام کے وزیر اعظم " حسین عرنوس" سے ملاقات میں، اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے تعلقات کو قدیمی اور اسٹریٹجک قرار دیا اور اپنے دورہ شام کے دوران صدر بشار اسد کے ساتھ ہونے والے اکثر معاہدوں پر عمل درآمد پر مسرت کا اظہار کیا۔
صدر مملکت نے ایران و شام کے درمیان معاہدوں پر مکمل در آمد میں تیزی پر زور دیا اور کہا کہ ایران اور شام مختلف معاشی، تجارتی اور سیاسی شعبوں میں تعاون میں توسیع کی بے شمار گنجائشوں کے حامل ہیں اور امید ہے کہ تہران و دمشق میں متعلقہ حکام کی توجہ سے جلد ہی ان گنجائشوں سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
ڈاکٹر ابراہیم رئيسی نے کہا کہ شام کے خلاف امریکہ اور صیہونی حکومت کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کی حکومت اور قوم نے استقامت کی اور امریکہ و صیہونی حکومت کی سازشوں خاص طور پر تکفیری دہشت گردوں کو ناکام بنایا ۔
صدر نے مزيد کہا: فلسطین کی اسلامی مزاحمت نے آج فضائیہ اور بحریہ سے محروم ہونے کے باوجود اپنے ایمان کے بھروسے صیہونیوں اور ان کے اصل حامی یعنی امریکہ کو بے عزت کر دیا ہے کچھ اس طرح کہ گزشتہ 60 دنوں کے دوران بے گناہ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کے علاوہ انہیں کوئي نتیجہ حاصل نہيں ہوا ہے اور اگر امریکیوں کی طرف سے انٹلی جنس، فوجی، سیکوریٹی اور مالی و تشہیراتی امداد نہ ہوتی تو یقینی طور پر صیہونی حکومت کا شیرازہ اب تک بکھر چکا ہوتا۔
صدر مملکت نے کہا کہ آج پوری دنیا کی رائے عامہ میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف نفرت پھیل گئي ہے اور یہ صیہونی حکومت کے جعلی ہونے پر مبنی گزشتہ 43 برسوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حقانیت کا ثبوت ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ طوفان الاقصی نے مزاحمتی محاذ کی سرحدوں کو علاقے سے پوری دنیا میں پھیلا دیا، کہا : مجھے ذرہ برابر شبہ نہيں ہے کہ جس طرح سے عراق، شام، یمن اور لبنان کی قومیں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے فتحیاب ہوئي ہيں، اسی طرح فلسطینی قوم بھی اس میدان سے فاتح بن کر نکلے گی۔
اس ملاقات میں شام کے وزير اعظم حسین عرنوس نے بھی، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورہ دمشق کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں تاریخی موڑ قرار دیا اور بینکنگ، انرجی ، سیاحت و تجارت جیسے مختلف میدانوں میں اس دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں کو اس بات کی علامت قرار دیا کہ تہران و دمشق کے حکام ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں فروغ کو اہمیت دیتے ہيں۔
آپ کا تبصرہ